اما بعد
فاعوذ باللہ من الشیطٰن الرجیم
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
و اما بنعمۃ ربک فحدث
بخت سے کوئی شکایت ہے نہ افلاک سے ہے
یہی کیا کم ہے کہ نسبت مجھے اِس خا ک سے ہے
________________
ملا نہیں وطنِ پاک ہم کو تحفے میں
جو لاکھوں دیپ بجھے ہیں تو یہ چراغ جلا
آج جو تقریر میں آپ کے سامنے پیش کروں گا اس کا موضوع ہے "وطن کی آزادی میں علماء کا کردار"
برادران اسلام! ملک پاکستان اللہ تعالی کی طرف سے بہت بڑی نعمت ہے جہاں ہم آزادی سے رہ رہے ہیں، ہر طرف امن و امان ہے مسجدیں اور مدرسے قائم کرتے ہیں اپنی عبادت کرتے ہیں دینی تعلیم دیتے ہیں یہاں کوئی روک ٹوک نہیں ہے یہ وہ ملک ہے جو لا الہ الا اللہ کلمہ کی بنیاد پر حاصل کیا گیا مدینہ طیبہ کے بعد یہ وہ واحد ملک ہے جس کی بنیاد کلمہ طیبہ ہے
سامعین گرامی! پاکستان کی آزادی کے پیچھے ہمارے علماء ہمارے شہداء ہمارے سیاسی لیڈروں کی بہت بڑی قربانیاں ہیں جن کو ہم کبھی بھلا نہیں سکتے
آئیے! ہم تاریخ کے صفحات میں دیکھتے ہیں کہ ان لوگوں نے کیسی کیسی قربانیاں دیں۔ جب انگریز کی میلی نظر خوشحال ہندوستان پر پڑی تو سر زمین ہند پر قبضہ کرنے کی ٹھان لی، تجارت کا بہانہ بنا کر ان میں گھس گئے اپنے مکر و فریب سے مسلمانوں پر تسلط جمانا شروع کیا
یوں دیکھتے ہی دیکھتے سن اٹھارہ سو ستاون (1857ع) میں مکمل طور پر ہندوستان کو اپنے قبضے میں لے لیا
سامعین ذی وقار! انگریز کے آنے کے بعد مسلمان دن بدن پست ہوتے چلے گئے اب ضروری تھا کہ ایسے اقتدار سے چھٹکارا حاصل کیا جائے جن کے وجود نا پاک کی وجہ سے اسلامی تعلیمات پر عمل کرنا مشکل ہو گیا تھا
چناچہ حضرت شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ نے فتویٰ دیا کہ ہندوستان دارالحرب ہوگیا ہے ادھر مجاہد کبیر سید احمد شہید رح اور حضرت شاہ اسماعیل شہید رح اپنے جانبازوں کے ساتھ میدان جہاد میں کود پڑے
یہ جہاد کا سلسلہ رکا نہیں بلکہ چلتا رہا یہاں تک کہ شاملی کے میدان میں ہم دیکھتے ہیں کہ علماء دیوبند کے سرخیل قاسم نانوتوی رح انگریزوں سے لڑتے نظر آتے ہیں، اور اپنی بازو پر گولی کھاتے ہیں اسی طرح ہم دیکھتے ہیں حضرت حاجی امداد اللہ مہاجر مکی رح مولانا رشید احمد گنگوہی رح اسی میدان میں انگریزوں کے خلاف بر سر پیکار نظر آتے ہیں اور حضرت حافظ ضامن شہید رح انگریزوں سے لڑتے لڑتے اسی میدان میں اپنی جان قربان کر دیتے ہیں اور بزبان حال یہ سب یہ کہتے ہیں
ادھر آ ستمگر ہنر آزمائیں
تو تیر آزما ہم جگر آزمائیں
ملے نہ ملے ہم کو منزل اگرچہ
چلو آؤ شوق سفر آزمائیں
سامعین دل نواز ! آزادی کا ایک دور وہ تھا جب مسلمان انگریزوں سے میدان جہاد میں لڑے اب مسلمانوں نے سیاسی پلیٹ فارم کے ذریعے آزادی کی جدو جہد شروع کردی اور دو بڑی سیاسی جماعتیں وجود میں آئیں ایک کانگریس اور دوسری مسلم لیگ۔
کانگریس نے متحدہ ہندوستان کا نظریہ پیش کیا جبکہ مسلم لیگ نے دو قومی نظریہ پیش کیا مولانا حسین احمد مدنی رح مولانا ابوالکلام آزاد رح وغیرہ نے کانگریس کی حمایت کی
اور حضرت حکیم الامت اشرف علی تھانوی رح علامہ شبیر احمد عثمانی رح مولانا ظفر احمد عثمانی رح اور دوسرے بہت سارے علماء نے مسلم لیگ کا ساتھ دیا
آج میں آپ کو تاریخ کی ایک ایسی حقیقت بتاتا چلوں جس کو بھلا دیا گیا ہے وہ ہے "دو قومی نظریہ" کے اصل محرک
دو قومی نظریہ سب سے پہلے پیش کرنے کرنے والے علماء دیوبند کے مولانا اشرف علی تھانوی رحمۃ اللہ علیہ ہیں
جون انیس سو اٹھائیس (1928ع) میں ایک مجلس میں حضرت تھانوی رح نے دو قومی نظریہ پیش کیا جس کو آج بھلا دیا گیا ہے
پھر یہی نظریہ دو سال بعد علامہ اقبال رح نے عملی طور پر عوام کے سامنے پیش کیا
سامعینِ محترم! مسلم لیگ نے کلمہ لا الہ اللہ کی بنیاد پر ایک الگ ریاست بنانے کا مطالبہ کیا تو ہم دیکھتے ہیں تو ان کے ساتھ دینے والے بھی علمائے دیوبند ہیں حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے خلفاء اور مریدوں کو مسلم لیگ میں شامل ہونے کا حکم دیا
چنانچہ علامہ شبیر احمد عثمانی رح مولانا ظفر احمد عثمانی رح مولانا مفتی محمد شفیع عثمانی رح میدان میں اترے
مولانا شبیر احمد عثمانی اور علامہ ظفر احمد عثمانی نے مختلف جلسوں میں شرکت کی اپنی تقریروں اور اپنے خطابات میں عوام کو مسلم لیگ کو ووٹ دینے پر آمادہ کیا اور مفتی شفیع عثمانی نے مسلم لیگ کی حمایت میں ایک فتویٰ جاری کیا
حضرت تھانوی اور دوسرے علماء کی محنت کو دیکھ کر قائداعظم کو یہ اعتراف کرنا پڑا کہ "میرے ساتھ ایک ایسا عالم کھڑا ہے جس کا علم و تقدس باقی علماء پر بھاری ہے".
یوں قائد اعظم اور ان کے ساتھیوں اور علماء کرام کی مشترکہ جدوجہد اور محنت سے شب قدر کی مبارک رات 27 رمضان المبارک 14 اگست 1947 کو پاکستان وجود میں آیا
جب مولانا شبیر احمد عثمانی رح مولانا ظفر احمد عثمانی رح اور مفتی شفیع رح قائداعظم کو آزادی کی مبارکباد دیتے ہیں تو وہ کہتے ہیں "مولانا یہ مبارک باد آپ کو ہے آپ کی کوششوں سے یہ کامیابی ملی ہے"
اسی طرح جب پرچم کشائی کی باری آئی تو علامہ شبیر احمد عثمانی رح نے مغربی پاکستان میں اور علامہ ظفر احمد عثمانی رح نے مشرقی پاکستان میں سبز ہلالی پرچم لہرایا
معزز سامعین! ہمیں چاہئے کہ اپنے وطن سے محبت کریں، پیار کریں۔ شہداء نے اپنا خون بہا کر ماؤں نے اپنے جگر گوشوں کو قربان کر کے بچوں نے یتیم اور بے سہارا ہوکر علماء اور سیاسی لیڈروں نے دن رات کی محنت سے آزادی حاصل کرکے جو پاکستان جیسی عظیم نعمت ہمیں دی ہے اس نعمت کی قدر کریں ہم اس کی حفاظت کریں
آخر میں یہ شعر پڑھ کر اپنی تقریر ختم کروں گا
یہ وطن تمھارا ہے تم ہو پاسباں اس کے
یہ چمن تمھارا ہے تم ہو نغمہ خواں اس کے
وآخر دعوانا ان الحمد للہ رب العالمین